کچھ لوگ ہارمون اور جسمانی بالوں کے تعلق سے یہ غلط خیال ذہن میں بٹھا لیتے ہیں کہ جن لڑکیوں کے بدن پر زیادہ بال ہوتے ہیں ان کے جسم میں مردانہ ہارمون اینڈروجن کی مقدار زیادہ ہوتی ہے حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے
انسانی صحت و حیات سے ہارمونز کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ اس کے باوجود اب تک ماہرین ہمارے جسم میں بننے والے ہارمونوں کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ تاہم پچھلے بیس پچیس برس کی تحقیق سے ہارمونز کے بارے میں علم میں کافی اضافہ ہوا ہے۔
ہارمون کی تیاری
آپ کے جسم میں دو طرح کے غدود (گلینڈز) پائے جاتے ہیں: بروں افروز غدود اور دروں افراز غدود۔ بروں افراز غدود جسم میں سیالات تیار کرتے ہیں‘ مثلاً تھوک‘ پسینہ‘ معدے کی ہاضم رطوبات اور بلغم۔ یہ تمام سیالات مختلف نالیوں کے ذریعہ سے متعلقہ اعضا تک پہنچتے ہیں۔ دروں افراز غدود بغیر نالی کے غدود ہوتے ہیں۔ ان کی رطوبت براہ راست خون میں جذب ہوکر مختلف اعضا تک پہنچتی ہے۔ ایک ماہر کے الفاظ میں ”ہارمون“ جسم کے کسی حصے میں ہونے والے کیمیائی عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ ہارمون اپنی پیدائش کے بعد دوران خون میں شامل ہوکر جسم کا چکر لگا کر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر ہارمون جسم کے ہر عضو کو کنٹرول کرتے ہیں۔
آپ کے دماغ کے مرکز میں ایک غدود ہوتا ہے جسے زیرعرشہ غدود کہتے ہیں۔ یہ غدود‘ ریڑھ کی ہڈی میں اعصاب کے ذریعے سے منسلک ہوتا ہے اوردماغ سے بھی اس کا تعلق ہوتا ہے۔ یہ غدود آپ کے خودکار اعصابی نظام اور دروں افراز غدودوں کے درمیان رابطے کاکام کرتا ہے۔ یہ جسم کے بہت سے افعال مثلاً بھوک‘ پیاس‘ نیند اور چستی کو باقاعدہ رکھتا ہے۔ یہ عورتوں کے ماہواری کے نظام کو کنٹرول کرتا ہے۔
ہارمون اور بلوغت
9سے 14 سال کی عمر کے درمیان لڑکیوں اور لڑکوں میں واضح جسمانی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ ماہرین ابھی تک بالکل ٹھیک طور پر ان اہم جسمانی تبدیلیوں کے اصل اسباب کا تعین نہیں کرسکے ہیں۔ نیویارک ہسپتال کے ڈاکٹر شین گولڈ کا خیال ہے کہ اس عمر میں جسم کے اندر ایک قسم کا زنجیری یا مسلسل ردعمل ہوتا ہے آپ کے جسم کا ایک حصہ ایک خاص ہارمون تیار کرتا ہے جس کے نتیجے میں آپ کے جسم کا دوسرا حصہ بھی متحرک ہوکر ہارمون تیار کرتا ہے۔ اس سے جسم کا تیسرا حصہ متاثر ہوتا ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے‘ یہاں تک کہ بلوغت کی تکمیل ہوجاتی ہے۔
یہ بات صنف نازک کیلئے حیران کن ہوگی کہ جس طرح ان کے جسم میں زنانہ ہارمون تیار ہوتے ہیں‘ اسی طرح ان کے جسم میں مردانہ ہارمون بھی تشکیل پاتے ہیں۔ لڑکوں میں بھی زنانہ ہارمون تیار ہوتے ہیں۔ گویا لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کے جسم میں مردانہ اور زنانہ دونوں قسم کے ہارمون تیار ہوتے ہیں۔ تاہم مردوں کے جسم میں اینڈروجن (مردانہ ہارمون) کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور عورتوں کے جسم میں زنانہ ہارمون کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔
دوران بلوغت میں جب اینڈروجن زیادہ بنتا ہے تو جسم پر بال بھی زیادہ بنتے ہیں۔ چنانچہ جسم پر بالوں کی مقدار کا انحصار جسم میں تیار ہونیو الے ہارمون ٹیسٹو سٹیرون کی مقدار پر ہوتا ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت مناسب ہوگی کہ بالوں کے بننے کا یہ عمل جسم کے صرف خاص حصوں پر ہوتا ہے۔ ان خاص حصوں کی سائنسی اصطلاح میں ”وصول کنندے“ یا ریسپٹر کہتے ہیں۔ بدن میں موجود وصول کنندوں کی تعداد اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ کسی ہارمون کا بدن پر کس شدت کے ساتھ اثر ہوگا۔
کچھ لوگ ہارمون اور جسمانی بالوں کے تعلق سے یہ غلط خیال ذہن میں بٹھا لیتے ہیں کہ جن لڑکیوں کے بدن پر زیادہ بال ہوتے ہیں ان کے جسم میں مردانہ ہارمون اینڈروجن کی مقدار زیادہ ہوتی ہے حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے۔ کسی لڑکی کے بدن پر زیادہ بالوں کی موجودگی کا تعلق ہارمون سے نہیں بلکہ اس بات سے ہے کہ اس کے بدن میں ریسپٹرز کی تعداد کیا ہے۔ اگر کسی لڑکی کو اس بات کا احتمال ہوکہ اس کے بدن پر بالوں کی تعداد زیادہ ہے تو اسے ماہر امراض نسواں سے مشورہ کرنا چاہیے۔
جب ایک لڑکی کے جسم میں دوران بلوغت زیادہ بال آنا شروع ہوجاتے ہیں تو گویا زنجیری ردعمل کا آغاز ہوجاتا ہے۔بیضہ دانیوں سے ایسٹروجن اور پروجسٹرون کے اخراج سے جسم میں مزید تبدیلیاں شروع ہوجاتی ہے۔ ایسٹروجن سینے کی بافتوں کی افزائش کرتا ہے اور پروجسٹرون زیریں شکم میں اہم تبدیلیوں کا سبب بن جاتا ہے ۔
تاہم ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ اگر کسی لڑکی کو 21برس تک علامات ظاہر نہ ہوں تو اسے کسی ماہر امراض نسواں سے رجوع کرنا چاہیے۔ اگر 14 برس کی عمر تک جسمانی تبدیلیاں ظہور میں نہ آئیںتو بھی معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔
مخصوص ایام کے آغاز کے ساتھ ہی جسمانی نمو بھی سست پڑجاتی ہے بلکہ رک جاتی ہے۔
ہارمون اور جذباتی صحت
اگر آپ کو مخصوص ایام کے ساتھ ہی تھکن کا احساس ہوتا ہے تو زیادہ فکر کی بات نہیں۔ دنیا بھر کی خواتین کو ان ایام میں تھکن اور اس قسم کے دیگر احساسات سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ منفی علامات ”قبل از ایام علامات“ کہلاتی ہیں۔
سائنسدان کہتے ہیں کہ اس دوران منفی جذبات جسم میں ہارمون کی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایسٹروجن ہارمون کی وجہ سے کٹے کولامین نامی رطوبت کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس سے چڑچڑے پن اور تشویش میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ پروجسٹرون سستی پیدا کرتا ہے اور نیند لاتا ہے۔ کچھ خواتین اس سے پستی کا شکار بھی ہوجاتی ہیں۔
ان کیفیات کا مقابلہ کرنے کیلئے ورزش بہترین ہتھیار ہے۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ ورزش سے فائدہ اس لیے ہوتا ہے کہ اس سے ایک کیمیائی جز ”ڈوپامین“ دماغ میں بنتا ہے جو فرحت و مسرت کا احساس جگاتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں